
| تم سے کب چاہا مجھے عمر کی شاہی دے دو مجھ کو دو روز تصرّف کی دعا ہی دے دو |
|
|
| تم کو معلوم ہے کس شے کا سزاوار ہوں میں حق پرستوں کی طرح آؤ گواہی دے دو |
|
|
| وحشتِ دل پہ تو اب یہ ہے کہ پردہ ہی رہے عقل کے نام کا اک ہم کو سپاہی دے دو |
|
|
| چاہو تو رکھ کے مرا دل مجھے دے دو دنیا چاہو دل توڑ کے دنیا کی تباہی دے دو |
|
|
| ظلمتِ عصیاں کو درکار ہے سورج لیکن کم سے کم نُورِ ہدایت کا دیا ہی دے دو |
|
|
| میری اُمّیدوں کی ہرشمع بجھا کر جاناں زندگی بھر کی مُقدّر کو سیاہی دے دو |
|
|
| کچھ تو ہو میری وفاؤں کا صلہ اور اگر کچھ نہیں سوچ کے رکھا تو سزا ہی دے دو |
|
|
| اس تغافل سے تو اچھا ہے کہ برہم ہوجاؤ کم نگاہی سے بھلی شعلہ نگاہی دے دو |
|
|
| دے نہیں سکتے محبّت چلو ایسا کرلو تم مجھے میری محبّت کا صلہ ہی دے دو |
|
|
| حبسِ تنہائی تو اشعؔر کے لیے موت ہے اب زندگی کے لیے آنچل کی ہوا ہی دے دو |
|
|
No comments:
Post a Comment