سارے طوفانوں نے سمجھا ہے کسی قابل مجھے اس لیے دیتا نہیں ہے کوئی بھی ساحل مجھے |
|
خواہشِ منزل بھی رکھتا ہوں مگر فی الحال تو کیسا دلکش لگ رہا ہے جادۂ منزل مجھے |
|
مانگ کر ہمدردیاں اغیار سے اپنے لیے کررہے ہیں دوست میرے بھیک کا قائل مجھے |
|
اس طرح سے بانٹ لیتا ہے مرے ہر درد کو ہر خوشی میں اپنی کرلیتا ہے وہ شامل مجھے |
|
عالمِ غربت میں بھی دل تو مرا مفلس نہیں اور دلِ مفلس نہیں تو کیا نہیں حاصل مجھے |
|
اس قدر تو علم رکھتا ہوں کہ میں عالم نہیں لوگ کہتے ہیں تو کہنے دیجیے جاہل مجھے |
|
پھینک جاتی ہیں سرِ ساحل مجھے کیوں بار بار کیوں سمجھ لیتی ہیں موجیں رحم کے قابل مجھے |
|
تم نہیں آتے اگر جاناں تو اتنا جان لو دشت صورت پائے گا ہنگامۂ محفل مجھے |
|
مرگیا ہوتا میں اب تک بالیقیں اشعؔر مگر دیتا رہتا ہے دعائیں بھی مرا قاتل مجھے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Monday, April 27, 2009
سارے طوفانوں نے سمجھا ہے کسی قابل مجھے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment