دل میں گُدازِ درد کو کم کردیا گیا یوں ختم زندگی کا بھرم کردیا گیا |
|
شمس و قمر چھپا کے پسِ پردۂ فلک سایہ مرے وجود میں ضم کردیا گیا |
|
دل نے وصال چاہا تھا اور ہاتھ پر مرے ریکھا سے حرفِ ہِجَر رقم کردیا گیا |
|
پیہم ہنسا ہنسا کے مجھے اپنے درد پر پلکوں کو میری خیر سے نم کردیا گیا |
|
مجھ کو روایتوں کی سلاسل میں باندھ کر مجبور ضبطِ نقشِ قدم کردیا گیا |
|
کہہ کہہ کے صبح و شام شہِ عجز و انکسار مجھ کو گدائے جاہ و حشم کردیا گیا |
|
خم رہنے کے بجائے کوئی سر جو شہر میں اُٹھتا ہوا لگا تو قلم کردیا گیا |
|
رکھ کر مرے لبوں پہ خود اپنا سوالِ شوق مجھ کو رہینِ چشمِ کرم کردیا گیا |
|
سازش یہی تھی آج اک احسان اور ہو یوں مجھ پہ ایک اور ستم کردیا گیا |
|
خود اپنے دستِ شوق سے دلکش تراش کر بے مول پتھروں کو صنم کردیا گیا |
|
پھیلا ہے اب بھی دامنِ اشعؔر پئے سُخَن گو حد سے بڑھ کے اس کو بہم کردیا گیا |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Monday, April 27, 2009
دل میں گُدازِ درد کو کم کردیا گیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment