
| دل میں گُدازِ درد کو کم کردیا گیا یوں ختم زندگی کا بھرم کردیا گیا |
|
|
| شمس و قمر چھپا کے پسِ پردۂ فلک سایہ مرے وجود میں ضم کردیا گیا |
|
|
| دل نے وصال چاہا تھا اور ہاتھ پر مرے ریکھا سے حرفِ ہِجَر رقم کردیا گیا |
|
|
| پیہم ہنسا ہنسا کے مجھے اپنے درد پر پلکوں کو میری خیر سے نم کردیا گیا |
|
|
| مجھ کو روایتوں کی سلاسل میں باندھ کر مجبور ضبطِ نقشِ قدم کردیا گیا |
|
|
| کہہ کہہ کے صبح و شام شہِ عجز و انکسار مجھ کو گدائے جاہ و حشم کردیا گیا |
|
|
| خم رہنے کے بجائے کوئی سر جو شہر میں اُٹھتا ہوا لگا تو قلم کردیا گیا |
|
|
| رکھ کر مرے لبوں پہ خود اپنا سوالِ شوق مجھ کو رہینِ چشمِ کرم کردیا گیا |
|
|
| سازش یہی تھی آج اک احسان اور ہو یوں مجھ پہ ایک اور ستم کردیا گیا |
|
|
| خود اپنے دستِ شوق سے دلکش تراش کر بے مول پتھروں کو صنم کردیا گیا |
|
|
| پھیلا ہے اب بھی دامنِ اشعؔر پئے سُخَن گو حد سے بڑھ کے اس کو بہم کردیا گیا |
|
|
No comments:
Post a Comment