وہی چراغ بجھے جو ہوا کے ہاتھ لگے وہ بچ گئے، تھے جو حَرفِ دُعا کے ہاتھ لگے |
|
چمن کے سارے گُلوں کو تری مہک مل جائے بس ایک لمس جو تیرا صبا کے ہاتھ لگے |
|
بتا تو دیتا وہ کیسے ہیں اور کہاں ہیں مگر سفینہِ والے کہاں ناخدا کے ہاتھ لگے |
|
سگِ دوانہ جو دُنیا پہ ڈھا رہا ہے ستم خدا کرے کہ وہ ظالم سزا کے ہاتھ لگے |
|
دُعائیں دے کے وہ قرضہ اُتار دیتا ہے کسی کی جب بھی سخاوت گدا کے ہاتھ لگے |
|
اب اتنا ہوش کہاں ہے کہ ہم کَہَیں دیکھو کوئی نہ عشوہ و ناز و ادا کے ہاتھ لگے |
|
زر و جواہر و لعل و گہر کو جب ہم نے نہ منہ لگایا تو اک بے وفا کے ہاتھ لگے |
|
چڑھے ہیں سولی پہ آتے ہی زیرِ لب اکثر سوال جتنے بھی میری انا کے ہاتھ لگے |
|
ہوس کی آنکھ سے محفوظ ہوگئے ہیں تمام وہ چاند چہرے جو اشعؔر حیا کے ہاتھ لگے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Tuesday, April 28, 2009
وہی چراغ بجھے جو ہوا کے ہاتھ لگے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment