
| وہی چراغ بجھے جو ہوا کے ہاتھ لگے وہ بچ گئے، تھے جو حَرفِ دُعا کے ہاتھ لگے |
|
|
| چمن کے سارے گُلوں کو تری مہک مل جائے بس ایک لمس جو تیرا صبا کے ہاتھ لگے |
|
|
| بتا تو دیتا وہ کیسے ہیں اور کہاں ہیں مگر سفینہِ والے کہاں ناخدا کے ہاتھ لگے |
|
|
| سگِ دوانہ جو دُنیا پہ ڈھا رہا ہے ستم خدا کرے کہ وہ ظالم سزا کے ہاتھ لگے |
|
|
| دُعائیں دے کے وہ قرضہ اُتار دیتا ہے کسی کی جب بھی سخاوت گدا کے ہاتھ لگے |
|
|
| اب اتنا ہوش کہاں ہے کہ ہم کَہَیں دیکھو کوئی نہ عشوہ و ناز و ادا کے ہاتھ لگے |
|
|
| زر و جواہر و لعل و گہر کو جب ہم نے نہ منہ لگایا تو اک بے وفا کے ہاتھ لگے |
|
|
| چڑھے ہیں سولی پہ آتے ہی زیرِ لب اکثر سوال جتنے بھی میری انا کے ہاتھ لگے |
|
|
| ہوس کی آنکھ سے محفوظ ہوگئے ہیں تمام وہ چاند چہرے جو اشعؔر حیا کے ہاتھ لگے |
|
|
No comments:
Post a Comment