
کس دورِ پُر آشوب میں ہاتھوں میں قلم ہے لگتا ہے سوئے دار و رسن اگلا قدم ہے |
|
|
| پھر ہاتھ کہاں پھیلیں گے عقدہ جو یہ کھل جائے جو فقر سے بھرتا ہے وہ غیرت کا شکم ہے |
|
|
| اطوارِ جبیں سائی سے یکسر نہ مٹا دو اغیار کے ایوانوں میں تھوڑا جو بھرم ہے |
|
|
| وہ ہم سے خفا ہونے کو ہے، جی نہیں صاحب ہم پر تو ابھی اس کی بڑی چشمِ کرم ہے |
|
|
| انصاف تو بکنے ہی نہیں آیا سو اب کے بازاروں میں اندھیر کا انبار بھی کم ہے |
|
|
| یہ اس کی وفاداری کی پہچان ہےشاید بس ایک مری ذات پہ ہر مشقِ ستم ہے |
|
|
| کیوں کر نہ شجر کاری کیے جائیے اشعؔر گلشن ابھی زرخیز ہے، مٹّی ابھی نم ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment