
| کاش یہ فکرِ محبّت تجھے حاصل ہوجائے عین فطرت ہے کہ دل عشق پہ مائل ہوجائے |
|
|
| تم اگر وصل کے ہر خواب کو یکجا کردو صاف قرطاس پہ تصویر مرا دل ہوجائے |
|
|
| اس لیے کرتا ہوں آغازِ سخن چھو کے تجھے تاکہ ہر شعر مرا رشک کے قابل ہوجائے |
|
|
| جرأت کفر میں دیکھوں گا تری شیخ مگر آیتِ عشق تو تجھ پر کوئی نازل ہوجائے |
|
|
| نذر کردوں میں دل و جاں اُسے خود ہی لیکن معترف مجھ سے محبّت کا تَو قاتل ہوجائے |
|
|
| زندگی میں تو چلو کون مُکمّل ہوگا کیا یہ ممکن ہے کہ مرکر کوئی کامل ہوجائے |
|
|
| ہم نے مانا کہ تمہیں پیار ہے طوفاں سے مگر کیا کروگے جو یہ طوفان ہی ساحل ہوجائے |
|
|
| چل دیا ہوں تری راہوں پہ تو ممکن ہے کوئی رنگ تیرا مرے اطوار میں شامل ہوجائے |
|
|
| عشق اور جاں کا زیاں لازم و ملزوم سہی کیا گراں ہے جو یہ سودا مجھے حاصل ہوجائے |
|
|
| جو سبق تو نے دیا سہل تھا لیکن اشعؔر عین ممکن ہے کہ آموختہ مشکل ہوجائے |
|
|
No comments:
Post a Comment