غضب کی آگہی پائی دیے کی زندگی سے اندھیرا بھاگ جاتا ہے ذرا سی روشنی سے |
|
گلے لگتے ہیں کتنے لوگ ہر محفل میں لیکن کوئی اس شہر میں ملتا کہاں ہے خوش دلی سے |
|
بھرم کھل جائے گا بالا قدی کا ایک پل میں تم اپنا رابطہ ہونے تو دو خود آگہی سے |
|
اُسےاب اجنبی کہنا فریبِ ذات ہوگا کہ اب تو دل ہمارا لگ گیا ہے اجنبی سے |
|
ملا ہے اے مرے لختِ جگر دل کو اچانک یہ زخمِ دائمی تیری حیاتِ عارضی سے |
|
حدِ فاصل کی خاطر سازشیں کتنی ہوئیں یہ دل لیکن چھُٹے کیسے تمہاری دل کشی سے |
|
ہمیں ہر بار اُلفت کا گُماں ہوتا ہے لیکن کہاں جاتا ہے اشعؔر کوئی آگے دل لگی سے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Tuesday, April 28, 2009
غضب کی آگہی پائی دیے کی زندگی سے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment