
| میں تو خود ہی دے رہا ہوں یہ بہانہ دیکھ لے مجھ سے بہتر کے لیے کچھ دن زمانہ دیکھ لے |
|
|
| بعد اک عمرِ ریاضت گر تری دانست میں تلخ ہے سچّائی تو قندِ فسانہ دیکھ لے |
|
|
| روپ ہیں جتنے فریبِ حُسن کے سب ہیں یہاں میرے دل میں جھانک کے آئینہ خانہ دیکھ لے |
|
|
| دوست سے ہےکس طرح کا ملنا جلنا کیا کہوں موج کا ساحل سے بس کنّی کٹانا دیکھ لے |
|
|
| تو نے پیمانِ وفا پر خود لکھا تھا ایک دن دسترس رکھتا ہوں تجھ پر مالکانہ دیکھ لے |
|
|
| چاہتا ہوں میں تجھے کتنا زمانہِ سے نہ پوچھ لمحہ بھر اپنا تجاہلِ عارفانہ دیکھ لے |
|
|
| شاعروں کی کیا کمی ہے شہر میں اشعؔر مگر کتنے لوگوں کا سخن ہے شاعرانہ دیکھ لے |
|
|
No comments:
Post a Comment