غمِ فُرقَت سے پیہم دل تو گھبرائے بہت ہے مگر گریہ کی حسرت بھی نکل جائے بہت ہے |
|
ہمِیں پاگل ہیں جو الجھے ہیں تیرے گیسوؤں میں اگرچہ ناصحا ہر روز سمجھائے بہت ہے |
|
ہزاروں بار دیکھا ہے شبِ تنہائی ہم نے کہ تیرے ساتھ اس کی بھی یاد آئے بہت ہے |
|
مجھے کیا دوش دیتے ہو مرے دل کو سنبھالو تمہیں اپنے قرین پاکر مچل جائے بہت ہے |
|
نشاطِ وصل کے لمحوں میں جانے کیوں ہمیشہ بچھڑ جانے کا پھر سے خوف در آئے بہت ہے |
|
سراب اپنی حقیقت میں نظر آیا تو دیکھو تماشہ آنکھ کا دریا بھی دکھلائے بہت ہے |
|
کوئی جب شیشۂ دل توڑ دے اشعؔر اچانک تو پھر صورت گری آئینہ دکھلائے بہت ہے |
|
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Tuesday, April 28, 2009
غم فرقت سے پیہم دل تو گھبرائے بہت ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment