
| غمِ فُرقَت سے پیہم دل تو گھبرائے بہت ہے مگر گریہ کی حسرت بھی نکل جائے بہت ہے |
|
|
| ہمِیں پاگل ہیں جو الجھے ہیں تیرے گیسوؤں میں اگرچہ ناصحا ہر روز سمجھائے بہت ہے |
|
|
| ہزاروں بار دیکھا ہے شبِ تنہائی ہم نے کہ تیرے ساتھ اس کی بھی یاد آئے بہت ہے |
|
|
| مجھے کیا دوش دیتے ہو مرے دل کو سنبھالو تمہیں اپنے قرین پاکر مچل جائے بہت ہے |
|
|
| نشاطِ وصل کے لمحوں میں جانے کیوں ہمیشہ بچھڑ جانے کا پھر سے خوف در آئے بہت ہے |
|
|
| سراب اپنی حقیقت میں نظر آیا تو دیکھو تماشہ آنکھ کا دریا بھی دکھلائے بہت ہے |
|
|
| کوئی جب شیشۂ دل توڑ دے اشعؔر اچانک تو پھر صورت گری آئینہ دکھلائے بہت ہے |
|
|
No comments:
Post a Comment