وہ ہر شے میں منوّر سادکھائی دے رہا ہے جو رہتا ہے پسِ پردہ دکھائی دے رہا ہے |
یہ اہلِ شہر کا روتے ہوئے تالی بجانا سرِ مقتل تماشا سا دکھائی دے رہا ہے |
غبارِ دل مرے اشکوں نے کیا دھویا کہ اب تو جو اچھا ہے مجھے اچھا دکھائی دے رہا ہے |
گُداز اتنا مرے دل کو دیا ہے عاشقی نے کہ ہر کانٹا گلِ لالہ دکھائی دے رہا ہے |
سرابِ عشق کے پیچھے بھلا کیسے نہ بھاگوں میں پیاسا ہوں مجھے دریا دکھائی دے رہا ہے |
یہ تیرا شہر ہے جب سے بتایا ہے کسی نے ہر اک چہرہ ترا چہرہ دکھائی دےرہا ہے |
ملا تھا جو کسی کمزور پل میں اتّفاقاً مرے ہر خواب میں آتا دکھائی دے رہا ہے |
ذرا سا وقت مشکل جو رواں ہے آج مجھ پر پہاڑوں کی طرح ٹھہرا دکھائی دے رہا ہے |
مری حدِّ بصارت پر یقیں آئے گا کس کو سو کیا بتلاؤں میں کیا کیا دکھائی دے رہا ہے |
ہر اک دُکھ درد کو اس شہر میں بس ایک شاید میری دہلیز کا رستہ دکھائی دے رہا ہے |
منانے آئے گا تجھ کو جو کل روٹھا تھا اشعؔر مجھے تو یہ عجوبہ سا دکھائی دے رہا ہے |
کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید
Tuesday, April 28, 2009
وہ ہر شے میں منوّر سادکھائی دے رہا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment