
| سخن ہمارے اگرچہ بڑے کمال کے ہیں مگر یہ سارے تراشے ترے خیال کے ہیں |
|
|
| ترے سوا بھی چمن میں بہت سے گل ہیں جو بے مثال ہیں ان میں تری مثال کے ہیں |
|
|
| برس رہا تھا جو نعلین پا سے گلیوں میں نظّارہ ہائے مدینہ اُسی جمال کے ہیں |
|
|
| ہمارے زخم ہیں گہرے مگر بڑے امکاں تمہارے حرَفِ تسلّی میں اندمال کے ہیں |
|
|
| ہے ڈر تو یہ بھی کہ بدنام ہونہ جائیں مگر حقیقتاً جو محافظ ہیں ڈر مآل کے ہیں |
|
|
| کروں میں فخر بہت کیا جواب پر اپنے مرے جواب میں جوہر ترے سوال کے ہیں |
|
|
| یہ مہر و ماہ یہ انجم یہ کہکشاں یہ دھنک یہ چھوٹے چھوٹے اشارے ترے جمال کے ہیں |
|
|
| تمام حُسنِ جہاں دیکھنے کے بعد کھُلا نظّارے اچھے تمہارے ہی خدوخال کے ہیں |
|
|
| تمہاری یادیں سمیٹوں تو ایسا لگتاہے تمام گزرے زمانے بھی عہدِ حال کے ہیں |
|
|
| مزاج عرشِ معلیٰ پہ ہیں مگر ناداں یہی نشان تو مظہر ترے زوال کے ہیں |
|
|
| یہی تو لگتا ہے ایّام حج میں چار طرف کہ سارے برگ و ثمر جیسے ایک ڈال کے ہیں |
|
|
| جو رستے رہتے ہیں پیہم جگر کے زخم تمام عطا کیے ہوئے اشعؔر بس اک ملال کے ہیں |
|
|
No comments:
Post a Comment