Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید

Sunday, April 19, 2009

پروفیسر آفاق صدیقی - رہگزار غزل پر ایک نظر




پروفیسر آفاق صدّیقی


۔'رہگزارِ غزل پر ایک نظر' ۔



اردو شاعری میں شعرائے متقدمین سے لے کر دورِ حاضر کی شعریات کا تحقیقی جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سب سے زیادہ محبوب و مرغوب صنف غزل رہی ہے۔


شائقینِ شعروسخن بھی یہی کہتے ہیں، ساری مہذّب دنیا میں اردو غزل کا بول بالا ہے۔ غالباً اسی لیے بھائی منیف اشعؔر ملیح آبادی ،جو مشہور و معروف غزل گو حضرت حنیف اخگؔر کے چھوٹے بھائی ہیں، موصوف نے طبع آزمائی تو دیگر اصنافِ شعری پر بھی کی ہے، جیسا کہ ان کے پچھلے دو ضخیم و خوبرو مجموعوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے، یعنی 'تلخ و شیریں' جس کی اشاعت 2001؁ء میں ہوئی، اور 'رختِ زندگی'، جو 2006؁ء میں منظرِ عام پر آیا۔ تاہم اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک بڑے زودگو شاعرِ غزل ہیں۔ چنانچہ، سینکڑوں غزلوں کا یہ مجموعہ گواہی دے رہا ہے کہ ؂


دلوں میں رہتا ہے برسوں وہ خوش نگارِ غزل

لہو جو کرتا ہے دل کو پئے بہارِ غزل


یہ فخر تجھ کو بھی ہوگا کہ اپنی جاں کی طرح

عزیز رکھتا ہوں میں بھی تجھے وقارِ غزل


رہے گا یونہی منوّر سدا، یقیں ہے مجھے

سُخن شناس نگاہوں میں اعتبارِ غزل


لگا کے میرے قلم پر روایتوں کی حدود

رکھے ہے پا بہ سلاسل مجھے حصارِ غزل


فلک نے جب ہمیں دیکھا ہے مضطرب یارو

اُتر ہی آئی ہے دل پر کوئی ہمارے غزل


نزولِ حرف و معانی پہ کون قادر ہے

سو کرتا رہتا ہے اشعؔر بھی انتظارِ غزل


یہ چند اشعارمیں نے 12 اشعار کی غزل سے اخذ کیے ہیں۔ اور مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ زیادہ تر غزلیں ایسی ہی تعداد رکھتی ہیں۔ زبان و بیاں کی جو بانگی اس غزل میں ہے، وہی اوّل تا آخر تمام غزلوں میں برقرار رہتی ہے۔


کچھ دن پہلے جب اشعؔر صاحب نے شرفِ ملاقات عطا کیا تو 'ذخیرۂ غزل' میرے حوالہِ کرتے ہوئے فرمایا: “ آپ ان غزلوں سے اس تیسرے مجموعہِ کے لیے شاملِ اشاعت کی جانے والی تخلیقات منتخب کریں۔” میں نے کہا، بھائی میرے! آپ کی مشقِ سخن کا جواب نہیں۔ دو سال کے قلیل عرصہِ میں سینکڑوں غزلیں کہہ ڈالیں۔ بہتر ہوگا کہ ان سب کو کتاب کی زینت بنائیں۔ بقول ڈاکٹر تاثیر:۔


شکارِ ماہ کہ تسخیرِ آفتاب کروں

میں کس کو ترک کروں، کس کا انتخاب کروں


شعر و ادب کے لیے رت جگے میرا معمول ہیں۔ سو آٹھ دس راتیں تمام غزلوں کا مطالعہ کرنے میں گزاردیں۔ اور جن غزلوں کو اپنے مزاج کے مطابق پایا، ان پر نشان لگادیا۔ حالانکہِ یہ لائقِ تحسین خوبی ہے کہ وقارِ غزل کی مستحق ہر غزل ہے۔


بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ غزل گوئی کے لیے فکرواحساس اور شعور و آگہی سے قطع نظر جو فنّی لوازمات درکار ہوتےہیں ان پر شاعر کی گرفت خاصی مضبوط و مستحکم ہے۔ مثلاً، اوزان و ارکان کو برتنے کا سلیقہ، بہت سی زمینوں اور بحروں میں غزل کہنے کا قرینہ، نشستِ الفاظ، مناسبت لفظی و رعایت لفظی کا التزام، ردیف و قافیہ کی وابستگی و پیوستگی، تشبیہات و استعارات کا برمحل استعمال، رمزیت و ایمائیت میں قواعد ء رسمیہ کی پاسداری، اور بحیثیتِ مجموعی اشعؔر کے اپنے الفاظ میں 'روایتوں کی حدود' کو تسلیم کرتے ہوئے 'حصارِ غزل' میں اس طرح رہنا کہ جیسے وجدان کو بیڑیاں پہنا رکھی ہوں۔


علاّمہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔ فرماتےہیں؂


ناصبوری ہے زندگی دل کی

آہ وہ دل جو ناصبور نہیں


منیف اشعؔر کا دل ناصبوری کا شکار ہے۔ اس لیے غمِ نہاں کو تبسّم آفرینی کے پردہِ میں رکھنے والا یہ شکستہ دل انسان اکثر و بیشتر بڑا مضطرب رہتا ہے۔ اسباب و محرّکات کیا ہیں، ان کے بارے مِیں اگر آپ تھوڑی بہت معلومات بہم پہنچانا چاہیں تو اس سے پہلے کا مجموعٔہ کلام 'رختِ زندگی' دیکھ ڈالیں۔


میری معروضات کا تو ارتکاز اس حقیقت سے تعلّق رکھتا ہے کہ غزل کہنا ایک ایسے کہنہ مشق شاعر کے لیے جی بہلانے کا محبوب مشغلہ ہے، جو غموں کی یورش سے دوچار رہا ہو۔ مگر یاسیت، قنوطیت، اور شکست خوردگی سےاپنی فکروخیال کو کافی حد تک بچائے رکھا ہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ 'نزولِ حرف و معانی' پر قادر ہونا یا نہ ہونا کس مفہوم کا عندیہ دیتا ہے؟ تو اس سلسلہِ میں یہ عرض ہے کہ فکروفن میں کاملیت کا دعویٰ کرنا ایک احمقانہ سی بات ہے۔


سخنوری میں ایک مرحلہ تو وہ ہوتا ہے جس کو خدائے سخن،میر تقی میؔر نے ایک ادب آموز شعر کے قالب میں ڈھالا ہے کہ ؂


مصرعہ کبھُو، کبھُو کوئی موزوں کروں ہوں میں

کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں


پھر یہی شاعر مرحلٔہ شوق طے کرتے کرتے وہ مقام بھی پا جاتا ہے ، جب پراعتماد لہجہِ میں پکارتا ہے؂


جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر

صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں


برادرم منیف اشعؔر نے شعر و سخن کے لیے 'خوش سلیقگی' سے جگر خوں کیا ہے، اور اب ان کی طبعِ رواں، دریائے سخن کو صدرنگ موجوں سے مالا مال کرنے میں منہمک ہے۔ کچھ غمِ دوراں، کچھ غمِ جاناں، اور کچھ دروں بینٔی احساس اور متحرّک جمالیات کے مضامین نو بہ نو ۔۔۔ ان کی غزلوں میں ایک ایسے چمن زار کا سماں پیش کرتے ہیں، جو طرح طرح کے پھولوں سے آراستہ ہو۔


لفظی و معنوی محاسنِ شعری ان کے کلام میں آورد سے نہیں، بلکہ بھرپور آمد سے پیدا ہوئے ہیں۔ جن میں کہیں بھی بلند آہنگی یا کرختگی نہیں۔ بلکہ، شستہ و شائستہ غنائیت، لہجہِ کی روانی و سادہ بیانی اور آدابِ غزل کی پاسداری سے پیدا ہونے والی خوش گمانی ، جو رجائیت کی نشانی ہے۔


مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔


لب تو میں نےسی رکھے تھے، یہ کسے معلوم تھا

آپ کا پیکر مری آنکھیں زباں کرجائے گا

٭

وہ جس پہ چلتے رہو، اور تھکن محسوس نہ ہو

وہ راستہ ہی کہیں پُرخطر بھی ہوتا ہے

٭

دیکھ لینا مری آنکھوں میں اگر جھانک سکو

عکس جتنے بھی نظر آئے تمہارے ہوں گے

٭

برائے پرُسشِ احوالِ غم آیا نہ کوئی

سو ہم نے اور جینے کا سبب ڈھونڈا نہ کوئی

٭

مرض کوئی بھی زمانہِ میں لاعلاج نہیں

ہمارا ہے بھی تو کیوں ذہن پر سوار کریں

بس ایک دل تھا ہمارا جو تم پہ وار دیا

بچا ہی کیا جو کسی اور پر نثار کریں

٭

کانٹوں کی جراحت سے پریشاں تو ہوں لیکن

کچھ پھول بھی پتّوں میں چھُپے دیکھ رہا ہوں

٭

یہ اشعار شاعر کی 'رہگزارِ غزل' کے سنگِ میل نہیں، بلکہ کچھ نشانیاں ہیں۔ ہمیں قوی اُمّید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس سفینۂ غزل کی پذیرائی ہوگی۔ بالخصوص شعروادب کے وہ قدرداں جو غزل کو اردو شاعری کی آبرو سمجھتے ، اور یہ جانتے ہیں کہ بقول استادِ محترم پروفیسر رشید احمد صدّیقی: ' غزل ہماری تہذیب میں اور ہماری تہذیب ہماری غزل میں ایسی ملی جلی ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جُدا نہِیں کیا جاسکتا'۔


غزل کو گفتگو کا آرٹ بھی رشید صاحب ہی نے کہا، اور بالکل بجا کہا ہے۔ شُستہ و شائستہ گفتگو اور مجلسی آداب کی ذہنی تربیت کے لیے 'رہگزارِ غزل' کی تمام غزلوں کا مطالعہ شائقین کو لفظ وبیاں کے حسن و جمال کی قدروں سے آشنا کرنے میں مثالی کردار ادا کرسکتا ہے۔


عصرِ حاضر میں جدیدیت اور جدید حسّیت کے نام پر جو فکرواحساس کے نئے پن کا قصیدہ زوروشور سے پڑھا جارہا ہے، مجھے اس بارے میں واضح طور پر یہ کہنا ہے کہ فکروآگہی اور شعورواحساس کا نام شاعری نہیں ہے، بالخصوص غزلیہ شاعری کی تو اپنی ایک رخشندہ و تابندہ تاریخ ہے۔


بھائی منیف اشعؔر کی غزلوں میں قدیم و جدید حسّیات اور زندہ رہنے والی روایات کا انجذاب اب بہر طور لائقِ تحسین ہے۔


اے جانِ تمنّا تجھے پہچان گئے ہم

تو روحِ محبّت ہے، ترا نام غزل ہے


پروفیسر آفاق صدّیقی

صدرنشیں، اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن، کراچی

2 January 2009



No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects