Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید

Sunday, April 19, 2009

ڈاکٹر مظہر حامد - منیف اشعر اور ان کا انداز فکر



ڈاکٹر مظہر حامد


منیفؔ اشعر اور ان کا اندازِ فکر


منیف اشعؔر سے میری پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب 'رختِ زندگی' ناچیز کو عطا کی۔ تقریبِ پذیرائی میں اہلِ قلم کی شرکت اور ان کے مضامین سننے کا موقع ملا۔


منیف اشعؔر ایک طویل عرصہِ سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ گیسوئے غزل سنوارنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان کی غزلیں صرف عشق و عاشقی تک ہی محدود نہیں، بلکہ وقت کی نبض پر بھی ان کا ہاتھ ہے۔


ان کے اشعار میں تنقیدی بصیرت کا ابلاغ بھی نہایت چابکدستی سے ہوا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کوئی بھی ادیب اس وقت تک اچھا ادب تخلیق نہیں کرسکتا جب تک اس میں تنقیدی صلاحیّت نہ ہو۔


احتشام حسین اعلیٰ ادب کے بارے میں رقمطراز ہیں: ۔


۔'اعلیٰ ادب ادیب کی شعوری قوّت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ نقّاد کو روایت اور تغیّر کا تاریخی احساس رکھنا چاہیے'۔


اچھی شاعری اسی وقت ممکن ہے کہ شاعر از خود ایک اچھا انسان ہو۔ منیف اشعؔر ایک اچھے انسان ہیں، ان کی گفتگو میں ایک مٹھاس اور خلوص پایا جاتا ہے۔ وہ ایک انسان دوست شخص ہیں۔ ان کی انسان دوستی کی چمک شاعری میں جھلک رہی ہے۔ وہ تصنّع اور تکلّف سے کوسوں دور ہیں۔ سادگی ان کا شعار ہے۔ شاعری میں بھی وہ سادگی ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کا لفظی دروبست، دل ودماغ کو بے کیف ہونے نہیں دیتا۔


سطورِ اوہمہ تاباں چو دست موسی ء عمراں

نقوش اوہمہ رخشاں چو صدر صفۂ سینا


نہال گلشنِ فِکَرت، لآل مخزنِ حکمت

زلال چشمۂ خبرت، سواد دیدۂ بینا


منیف اشعؔر کے دو مجموعوں 'تلخ و شیریں'، اور 'رخت زندگی' کی اشاعت ہوچکی ہے۔ اور اب تیسرا مجموعہ 'رہگزارِ غزل' اشاعت کے لمس سے آشنا ہے۔


اُن کا تعلّق ایک علمی وادبی گھرانہِ سے ہے۔ ان کے بڑے بھائی حنیف اخگؔر ایک ممتاز اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔


منیف اشعؔر غزل کے شاعر ہیں، اور خوب کہتے ہیں۔ اُن کا احساس، احساسِ لطیف ہے۔ ان کے لب و لہجہِ میں ایک طلسمی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان کی شاعری میں سماجی، معاشرتی ناہمواریوں کا تذکرہ بھی خوب ہے۔ انسانیت کے احترام میں فکرونظر کی جو پاکیزگی ہمیں نظر آتی ہے، وہ باطنی کیفیت کا اظہار ہے۔ ایک دیدہ ور شاعر ہونے کی حیثیت سے جو محسوس کیا، اسے دیانت داری سے شعری پیکر میں ڈھال دیا۔


لانجائینس نے کیا خوب کہا:۔


۔'عظیم الفاظ عظیم افکار رکھنے والے لوگوں کے منہ سے صادرہوتے ہیں'۔


منیف اشعؔر کی شاعری میں جذبات کی رنگارنگی، اور خیالات کی ہمہ جہتی ارفع نظر آتی ہے۔ فکرِ رسا، اور وسعتِ نگاہ نے افکارِ تازہ سے جو روح پھونکی ہے، وہ یقیناً آفاقیت کی حدوں کو چھورہی ہے۔


کہِیں کہِیں تو لگے ہے حیات ہے اب بھی

غزل کا پہلا تعلّق جمالِ یار کے ساتھ


درحقیقت شاعر کا کام انسانوں کو بہتر بنانا ہے۔ وہ اپنی فکرِ اور جذبہِ سے اپنے فن میں صداقت کا رنگ بھر دیتاہے۔ ڈاکٹر جانسن کا قول ہے:۔


۔' شعر مقفّیٰ انشاء ہے۔ یہ ایسا فن ہے جو تعقّل اور تخیّل کی مدد سے انبساط کا پیوند صداقت کے ساتھ لگاتا ہے'۔


منیف اشعؔر کی شاعری میں جو اثرانگیزی پائی جاتی ہے، وہ اخلاقیات کا ترفّع ہے۔کیونکہ، اثرالفاظ اور طرزِ اظہار سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں میں سرمستی، اور تخیّل کا بھرپور رچاؤ پایا جاتاہے۔ تغزّل کے لیے مضمون آفرینی، فکر کی گہرائی، اور جذبہ کی شدّت نہایت ضروری ہے۔ قادرالکلام شاعر ہونے کی حیثیت سے ان کے کلام میں زندگی کے عمومی تجربات اور فکر و احساس کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں، جن میں نُدرتِ بیان اور جمالیاتی کیفیت کا اظہار سلیقہِ سے ہوا ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:۔


سوادِ ساحلِ دریا بھی جانتا ہوں، مگر

مزہ کچھ اور ہی آتا ہے، ڈوب جانے میں


عظمتِ شعری کا خیال رکھتے ہوئے، وہ جدید احساسِ انبساط کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے تقاضے ہوں، یا غمِ دوراں کی الجھنیں، انہوں نے علامتوں میں ایک نیا تأثّر پیدا کیا ہے۔ تفکّر میں پاکیزگی کے ساتھ جذبہِ کی گہرائی بھی ہے۔ زبان نہایت سادہ، سلیس، رواں، نغمگی اور موسیقی اور اُسلوب و اظہار میں انفرادیت کو ملحوظ رکھا ہے۔


منیف اشعؔر نے منطق و فلسفہِ کی بجائے حسن کاری سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں ایک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ شاعر جو کچھ پیش کرتا ہے، اس میں زندگی ہوتی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی غزلیات میں مسرّت و تسکین کا جو سامان پایا جاتا ہے، وہ طرزِ بیان اور ذوق و شوق کی چاشنی کے بغیر ناممکن ہے۔


ان کے ہاں سطحیت نام کو نہیں۔ جو بات بھی وہ کہتے ہیں، اس میں ایک وقار اور معیار ہوتا ہے۔ فنّی لطافتوں کے ساتھ بلندیء فکر کو بھی دیکھاجاسکتا ہے۔ شاعری میں فصاحت، دلکشی، اور بلا کی دلآویزی پائی جاتی ہے؂


شبِ سُخن میں یہ رونقِ کمالِ فن کی نہیں

ہے جو بھی رونقِ محفل، سب دیے کی ہے

٭

کہو تو میں تمہیں دے دوں لباسِ شعر و سخن

نکھر سی جائے گی دوشیزگی، غزل کہہ دوں

٭


اشعار میں غنائیت اور رجائیت کا جو امتزاج پایا جاتا ہے، وہ تخیّل کی گلکاریاں ہیں۔ زندگی کے تلخ تجربات کے ساتھ حسن و عشق اور جبر و استحصال کا واضح اظہار ملتا ہے۔ طرزِ بیان کی جدّت اور زبان کی سلاست نے ایک توانا اور مؤثّر انداز اختیار کرلیا ہے۔ لہٰذا یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کا تیسرا مجموعٔہ کلام 'رہگزارِ غزل' انفرادیت کے ساتھ اپنا ایک اعتبار قائم کرے گا۔


کوئی بھی آندھی بھلا کیا بجھاسکے گی انہیں

چراغِ راہ خدا کو وکیل رکھتے ہیں


ڈاکٹر مظہر حامد

شعبۂ اردو، کراچی یونی ورسٹی





No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects