Justuju Tv جستجو ٹی وی


کلیات منیف اشعر - رہروان رہگزار غزل خوش آمدید

Monday, April 20, 2009

پروفیسر سحر انصاری - چند تاثرات



پروفیسر سحؔر انصاری


چند تأثّرات


سیّد محمّد منیف اشعؔر ملیح آباد کے مردم خیز خطّہِ سے تعلّق رکھتے ہیں۔ ان کا گھریلو ماحول اور خاندانی پس منظر علم و ادب سے عبارت رہا ہے۔ ان کے برادرِ بُزرگ حنیف اخگرؔ ادبی دنیا کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ اب یہ دونوں بھائی امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ایک ریاست ہائے مُتّحدہ کے شہر ڈیلاس میں، جب کہ دوسرے کی سَکونت کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں ہے۔


دونوں حضرات ادب و شعر کے لیے وقف ہیں، تاہم اپنی سماجی ذمّہِ داریوں کو بھی اعلیٰ سطح تک پہنچ کر نبھایا ہے۔ ایسا توازن شعراء کی زندگی میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔


منیف اشعؔر کا پہلا مجموعۂ نظم و غزلیات، 'تلخ و شیریں' 2002؁ء میں اور دوسرا مجموعہ 'رختِ زندگی' ..    2006؁ء میں شائع ہوا۔ تیسرا مجموعہ 'رہگزارِ غزل' آپ کے سامنے ہے، اور یہ پہلی مرتبہ 2009؁ء میں اشاعت پذیر ہوا۔


منیف اشعؔر ایک مُخلص اور درد مند انسان ہیں۔ زندگی میں اُنہیں بیماریوں کے عذاب ناک تجربوں سے گزرنا پڑا۔ لیکن، ان کے عزم و حوصلہِ میں کمی نہیں آئی۔ انہوں نے ایک طرف تو زندگی اور موت کے حقائق کو گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش کی، دوسری طرف شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ تاکہ وہ واقعی وہ تزکیہ* ، کی اس منزل سے گزر سکیں جو ایسے عالم میں کسی تخلیقی وجود کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔

وہ افراد جو اپنے تہذیبی اور لسانی معاشروں سے بہ وجوہ دور رہ کر زندگی بسر کررہے ہیں، ان کے تجربات و محسوسات کا مطالعہ بہ جائے خود اس نئے عہد کا اہم موضوع بن سکتا ہے۔ اس پر توجّہ دینے کے لیے علم الانسانیات، انتھروپولوجی، نفسیات، اور عمرانیات کے شعبے تحقیقی ذمّہ داریاں سنبھال سکتے ہیں۔ لیکن اس کا سب سے اہم اور جیتا جاگتا مآخذ شعر و ادب کا وہ سرمایہ ہے جو اجنبی سرزمینوں میں سکونت اختیار کرلینے والے افراد نے تخلیق کیا ہے۔ اس میں مراتب اور مدارج اپنی جگہ، لیکن انسانی تجربات کی اہمیت کسی سطح پر ختم نہیں ہوتی۔


منیف اشعؔر کو غزل سے خاص دل چسپی ہے۔ وہ کلاسیکی اسالیبِ غزل سے واقف ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ روایت میں رہتے ہوئے اپنے عہد کی حقیقتوں کو کس طرح بیان کیا جائے۔ ان اشعار سے منیف اشعؔر کے اندازِ فکر پر روشنی پڑتی ہے:۔


وہ افکارِ برہنہ کیوں لے آتے ہو جن کو

لفظوں کے کپڑے پہنانا بے حد مشکل تھا


اور شاعری کے لیے کہا بھی یہ گیا ہے کہ؂


برہنہ حرف نہ گفتن کمالِ گویا ئیست


منیف اشعؔر کے مزید اشعار دیکھیے؂


جَتا، نہ مجھ کو، کہ دستار مل چکی ہے تجھے

ترا سُخَن، تری قامت، مری نگاہ میں ہے

٭

وہ چاہتے تھے تعلّق تمام ختم نہ ہو

سو التفات بھی کچھ گاہ گاہ کرتے رہے

٭

کس دورِ پُر آشَوب میں ہاتھوں میں قلم ہے

لگتا ہے سوُئے دار و رسن اگلا قدم ہے

٭

لباس تھا وہ مرے واسطے، میں اس کے لیے

مری وہ آبرو، میں اس کی آبرو ہوتا

٭

کہنے کو بہت سرد سا لگتا ہے وہ لیکن

اس جیسا کوئی شعلہ بہ داماں بھی نہیں ہے

٭

ہر صاحبِ دستار و عبا ارضِ وطن میں

شورش کے بپا کرنے کو آزاد ہے شاید

٭

چمن کے سارے گلوں کو تری مہک مل جائے

بس ایک لمس جو تیرا صبا کے ہاتھ لگے

٭

میں اب یہ سوچتا ہوں کیوں نہیں سوچا کبھی پہلے

زمینِ غیر پر کیسے میں اپنا گھر بنا لوں گا

٭

غلط ہے اس سے اُمّیدِ خیالِ دل کوئی

جو پتّھروں مِیں رہے، شیشہ گر نہیں ہوتا

٭

چلو کہ ہم نے وطن سے وفا نہ کی اشعؔر

وہ سرزمین تو ہوتی مکیں سے وابستہ

٭


منیف اشعؔر کے کلام میں ایسے اشعار کی کمی نہیں۔ ان میں ان کی زندگی کے گرم و سرد، تلخ و شیریں اپنے اپنے رنگ میں نمایاں ہوتے ہیں۔ منیف اشعؔر مشرق و مغرب کی فضاؤں میں جس طرح زندگی بسر کررہے ہیں، وہ اب دو، چار، دس کے نہیں، ہزاروں خاندانوں کے تجربات کا حصّہ ہیں۔ شاعری وہی ہے جو دوسروں کے دلوں کی آواز بھی بن جائے۔ یہ چند اشعار جو میں نے منتخب کیے ہیں، یک رُخے اوریک موضوعاتی نہیں ہیں۔ ان میں انسان کے تمام رشتوں اور انفرادی و اجتماعی روّیوں کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ اس اعتبار سے منیف اشعؔر کے کلام کا بیشتر حصّہ آج کے طرزِ احساس تک رسائی میں معاونت کرسکتا ہے۔ یہی اُن کی سخن طرازی کا حاصل ہے۔ میں اُنہیں ان کے تیسرے مجموعٔہ کلام کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔


............................................................

تزکیہ=Catharsis *

یہ مضمون "اردو آرٹیکلز" کے خزانہ میں یہاں کلک کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔

No comments:

Design & Content Managers

Design & Content Managers
Click for More Justuju Projects